Monday, August 12, 2013

کاش

کاش! کاش کہ تم میری ہوتی!!

کاش کہ ہمارے درمیان ذات پات، مذہب برادری اونچ نیچ غرض کہ کوئی فرق نہ ہوتا، کاش کہ تم کسی طرح میری ہوجاتی، کاش کہ میں دنیا کےسامنے تم سے عشق کا اظہار کرسکتا۔

کاش کہ سماج کی دیواریں ہمارے درمیان حائل نہ ہوتیں، کاش کہ تم لوگوں کی پروا کیے بنا میری ہوجاتی کاش فقط کاش!!!

میری باتیں سن کر وہ بوجھل قدموں سے میری جانب بڑھی اور میرے ہاتھ تھام کر اس نے نم آنکھوں سے میری آنکھوں میں جھانکا، میرے سارے سوالات اور سارے کاش کے جواب میں وہ بس اتنا ہی بولی۔ ۔ ۔

کاش!!

Tuesday, August 6, 2013

مہربان، قدردان بھائی جان مہینہ ہے رمضان، اور یہ ہے دکانِ رمضان

ہیلو جی کون؟

سر! ٹی وی چینل؟

جی، آپ کون؟

سر مجھے آپ کی رمضان ٹرانسمیش دکانِ رمضان کا پاس چاہیے

معذرت خواہ ہوں ، آپ نے غلط جگہ کال کی ہے یہ انٹرٹینمنت چینل نہیں نیوز ہے اور دکانِ رمضان کے پاسز ختم ہوگئے ہیں

سر پلیز!! ایک پاس دے دیں، ہمیں تو بے ایمان ٹرانسمیشن میں شرکت کا موقع مل رہا ہے لیکن ہم جانا نہیں چاہتے


معذرت خواہ ہوں، تاہم پاسز ختم ہوں گئے ہیں لیکن آپ اس نمبر پر کال کرلیں

021-1234567

جی بہت شکریہ

اللہ حافظ


سب ڈرامہ کرتے ہیں! مذہب کو مذاق بنا دیا ہے ان ٹی وی چینلز والوں نے، کاروبار بنادیا ہے مذہب کو جہنمی سارے، ناک بھی رگڑیں تو نہ جاؤں میں، پتا نہیں لوگ کیسے تڑپتے ہیں جانے کیلئے؟؟

Tuesday, June 18, 2013

میکال

قدموں کی آواز سے اسکی آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی اس نے دیکھا کے وہ ایک ایسی جگہ موجود ہے جو بہت تنگ اور تاریک ہے۔ ماحول کافور کی بو سے مہک رہا تھا اور وہ ارض پاک کی نم مٹی کی سوندھی خوشبو سونگھ سکتا تھا ، وہ ارض پاک کہ جس کو اس نے  ہمیشہ برا بھلا کہا آج وہ اسی ارض پاک کا حصہ بن چکا تھا۔ اس نے ہلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اسے زمین کی سختی اور لٹھے کی کڑک پریشان کر رہی تھی۔ اسے احساس  ہوگیا تھا کہ وہ قبر میں موجود ہے اور مرچکا ہے۔


اسے یاد نہیں تھا کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچا وہ تو بس اپنی محبوبہ سے ملنے جارہا تھا اور راستے میں اسکی گاڑی کسی چیز سے ٹکرا گئی تھی۔ وہ الٹی گاڑی میںپڑا تھا۔ گاڑی ابھی بھی فلمی گیتوں سے گونج رہی تھی۔ وہ ہکہ بکہ تھا اور کچھ بھی سمھجنے سے قاصر تھا اسے کچھ سوجھائی نا دیا کے کیا کرے اتنے میں لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوگئے اور کلمہ پڑھنے کو کہنے لگے مگر اسے کلمہ یاد نہیں آرہا تھا ۔ لوگوں نے جب اسے کلمہ پڑھوانے کی کوشش کی تو اسکی زبان نے ساتھ نا دیا، وہی کلمہ کے جس کی بنیاد پہ وہ خود کو مسلمان کہتا تھا ہاتھوں میں جام لیے جب بھی کبھی شہر کی سڑکوں پہ آوارہ گردی کرتے اسے کوئی لعن طعن کرتا وہ خود کو مسلمان کہہ کر انھیں چپ کروادیتا۔ آج وہ اسی کلمہ کو ادا نہیں کرسکا اور جہان فانی سے کوچ کرگیا۔


وہ لیٹا ہوا اپنے دوستوں کی آواز سن رہا تھا وہی دوست کہ جن کے ساتھ اسکی نجانے کتنی شامیں زنگین ہوئیں تھیں۔ آج وہی دوست باہر کھڑے کاروبار کی باتیں کر رہے تھے۔ اسکے دوست کہ جو ہمیشہ ساتھ نبھانے کی باتیں کرتے تھے وہ آج اسے چھوڑ کر جا رہے تھے۔ اسکی جان جا چکی تھی اور اب دوست بھی پرانے ہوچکے تھے۔ اسکے گھر والوں نے تو نا جانے کب اسے چھوڑ دیا تھا کہ وہ اس قابل نہ رہا تھا کہ اسے گھر میں رکھا جاتا۔ اسکے آوارہ دوستوں نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا تھا۔ گھر والوں کے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ باز نہ آیا تو اسکے والد نے اسے گھر سے نکال دیا۔

آج وہ شکست خوردہ باپ اسکی قبر پر بیٹھا آنسو بہا رہا تھا اور اسکی قبر کی گیلی مٹی کو اپنے آنسوؤں سے مقدس بنا رہا تھا کہ جب تک مٹی گیلی ہو حساب کتاب نہیں ہوتا۔ مگر اس کے اعمالوں کی گرمی کچھ ایسی تھی کہ اسکے باپ کے آنسوں گرنے سے پہلے ہی ہوا میں تحلیل ہوجاتے۔

اس نے نہ جانے کتنے لوگوں کی جانیں لی تھیں، کتنی عورتوں کو بیوا کیا کتنے بچوں کو یتیم کیا اور نہ جانے کتنی ماؤں سے انکےلخت جگر چھینے۔ انگنت باپوں نے اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو اسکی وجہ سے کاندھا دیا۔ کبھی اسکو کسی کا دکھ نہ ہوا۔ گولی چلاتے وقت کبھی اسکے ہاتھ نہ کانپے اور نہ اسے کبھی کسی کے دکھ کا، درد کا احساس ہوا مگر آج اسکے باپ کی سسکیاں اور آنسوںاسکے جسم کو مرنے کے بعد بھی کاٹ رہے تھے، وہ درد سے چلا رہا تھا وہ مرنے کے بعد بھی پل پل مر رہا تھا۔

لوگ زبردستی اسکے باپ کو لے جانے لگے وہ چیختا رہا بابا مجھے چھوڑ کے نا جاؤ مجھے ڈر لگ رہا ہے یہاں بہت اندھیرا ہے گھٹن ہے عجب وحشت ہے۔ بابا مجھے ساتھ لے چلو یوں چھوڑ کے نا جاؤ، مجھے بچالو۔ ۔ ۔۔ ۔ وہ نہ جانے کیا کیا کہتا رہا مگر اسکی آواز اسکے اندر ہی گونجتی رہی۔ لوگ اسکے باپ کو لے گئے اور عجب سنا ٹا اسے کاٹ کھانے کو دوڑ نے لگا۔

وہ تنہائی میں وہاں پڑا تھا اسے ساری باتیں یاد آرہی تھیں۔ پیاس سے اسکے حلق میں کانٹے چھب رہے تھے۔اسے وہ سارے جام یاد آگئے جو وہ ایک وقت میں پی جایاکرتا، محلےکی مسجد کے امام صاحب اسے سمجھاتے کہ اسے نہ پیو یہ حرام ہے، مگر وہ انکی بات کا مذا ق اڑاتا اور انکی باتوں پر کان نہ دھرتا۔ مگر آج قسمت نے اسکے ساتھ کیسا بھیانک مذاق کردیا تھا اور اسے گہری اندھیری قبر میں پٹخ دیا تھا۔ اسے اپنے سارے گناہ یاد آنے لگے جو اس نے جانتے بوجھتے کیے وہ چلا رہا تھا درد سے تڑپ رہا تھا مگر آج اسکا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
اسے بار بار وہ بابا جی یاد آرہے تھے کہ جسے اس نے ایک بار زخمی حالت میں پانی پلایا تھا اور انھوں نے اسے دنیا و آخرت کی کامیابی کی دعا دی تھی۔ اسے اپنی صرف یہی واحد نیکی یاد تھی جو اس نے زندگی میں کی تھی وہ اسی نیکی کے آسرے میں پانی اور مغفرت کی آس لگارہا تھا مگر اسے پتا تھا کہ اسکے گناہوں کی فہرست طویل ہے۔

اب وہ انتظار کررہا تھا کہ کب اسے جہنم میں پھیکا جائے گا مگر وہ رحمت خداوند سے مایوس نہ تھا۔ فرشتے آگئے اس سے سوال کیے مگر وہ جواب نہ دےسکا اور جواب دیتا بھی کیسے وہ تو زندگی بھر مسجد کے پاس سے بھی نا گزرا تھا، سوائے ایک دن کے جب اس نے مسجد میں ایک شخص کو قتل کیا تھا۔ وہ امتحان میں ناکام ہوگیا تھا اور اب اسے جہنم رسید کیا جانا تھا۔ اسکی قبر سانپوں، بچھوؤں سے اور عجیب عجیب زہریلے کیڑوں سے بھر گئی۔ ایک سانپ رینگتا ہوا اس کہ ماتھے پر پہنچ گیا۔ اس نے کبھی اپنی ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دی تھی مگر آج بے بس پڑا خود کو ان کیڑوں کو رحم و کرم پر دیکھ رہا تھا۔
ایک بڑے سے بچھو نے اسکے بازو پر کاٹا اسکے منہ سے ایک زور دار چیخ برآمد ہوئی یہ قبر میں پہنچنے کے بعد اسکی اپنی پہلی آواز تھی جو اس نے اپنے کانوں سے سنی اور ماحول میں گونج محسوس کی۔ اسکی آنکھیں پھٹ چکی تھیں وہ پھٹی ہوئی آنکوں سے چھت کو تک رہا تھا منظر بدل چکا تھا دور کسی مسجد سے فجر کی اذان بلند ہورہی تھی۔ وہ پسینے میں شرابور تھا وہ قبر میں نہیں بلکہ اپنے عالیشان کمرے میں تھا اور اسکے بازو پہ بچھو نے نہیں بلکہ مچھر نے کاٹا تھا۔ اسے ادراک ہوگیا تھا کے وہ زندہ ہے وہ خواب دیکھ رہا تھا۔

اس نے فوراً اپنا بستر چھوڑا اور منہ ہاتھ دھوکر مسجد روانہ ہوگیا۔ مسجد میں وضو کے وقت نمازی اسے حیران آنکھوں سے تک رہے تھے مگر وہ آج اس سے خوفزدہ نہیں تھے، وہ اسکے چہرے پر اطمینان محسوس کرسکتے تھے۔ ایک عجب اطمینان ایک ایسا سکون جیسا بچہ ماں کی گود میں محسوس کرتا، وہ دنیا و مافیا سے بے خبر اپنی ماں کی گود میں سو جاتا ہے۔ اسے نماز پڑھنی نہیں آتی تھی وہ تو بس بلک بلک کر رو رہا تھا مسجد میں اسکے رونے کی آواز گونج رہی تھی۔ نماز ختم کرکے نمازی اسکے پاس جانے لگے امام صاحب نے انہیں روک دیا کہ اسے آج اسکے حال پہ چھوڑ دو وہ آج لوٹا ہو، اسے آج اپنے رب سے باتیں کرنے دو، اپنا غم ہلکہ کرنے دو۔ وہ آج اپنے رب کے زیادہ قریب ہے اسے اپنے رب کے پاس رہنے دو۔ وہ بچوں کی طرح رورہا تھا اور نمازی اسے دیکھ کر رو رہے تھے ایک ایک کرکے تمام نمازی مسجد سے چلے گئے۔

اب وہ مسجد میں اکیلا تھا مسجد میں صرف وہ تھا اور کوئی نہیں، وہ تھا اور اسکی سسکیاں، اسکے کپڑے آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے اور قالین تر ہو گیاتھا۔ یکا یک مسجد میں ایک روشنی ہوتی ہے۔ چہارسو نور ہی نور ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے ایک نورانی شخصیت کے جن کا چہرا چودھویں کے چاند سے زیادہ چمک رہا تھا اور انہوں نے سفید نورانی لباس زیب تن کیاہوا تھا وہ مسجد میں داخل ہوتے ہیں اور نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اسے وہ نورانی چہرا کچھ مانوس سا لگتا ہے وہ اس نور میں کھو جاتا ہے۔

وہ بزرگ سلام پھیر کر اسے مسکراتے ہوئے دیکھتے ہیں اور دعا میں مشغول ہوجاتے ہیں، اسے اچانک یاد آجاتا ہے کہ یہ وہی بزرگ ہیں کہ جنہیں اس نے ایک روز زخمی حالت میں پانی پلایا تھا، وہ سمھج جاتا ہے کہ یہ انکی دعا کا اثر ہے کہ اسکی آنکھیں کھل گئیں ہیں وہ ان سے بات کرنا چاہتا ہے مگر وہ دعا میں مشغول ہوتے ہیں۔ وہ انتظار کرنے لگتا ہے کہ وہ دعا ختم کریں اور وہ ان سے بات کرے۔ بچے مسجد میں قران پڑھنے آجاتے ہیں بچوں کو دیکھ کر وہ اپنے بچپن کے دن یاد کرنے لگتا ہے جب وہ اپنے بھائی بہن کے ساتھ قرآن پڑھنے مسجد جایا کرتا تھا۔

وہ ان ہی خیالوں میں گم ہوتا ہو اور پیچھے دیکھتا ہےتو وہ بزرگ جا چکے ہوتے ہیں وہ تیزی سے باہر آتا ہے مگر مسجد کے باہر دور تک کوئی دکھائی  نہیں دیتا۔
وہ مسجد سے سیدھے اپنے ماں باپ کے گھر جاتا ہے۔ اسکا بھائی اپنے بچوں کو اسکول لے کر جا رہا ہوتا ہے ، بھابی اسے اندر آنے کا کہتی ہےمگر اسکا باپ درمیان میں آجاتا ہے کہ ایک قاتل کی اسکے گھر میں کوئی جگہ نہیں۔ اسکی ماں بیٹے کی خوشبو سونگھ کر باہر آتی ہے لیکن اسکا باپ اسے گھر سے نکال کر اسکے منہ پر دروازہ بند کردیتا ہے۔

وہاں سے وہ سیدھا تھانے پہنچ کراپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے گرفتاری دے دیتا ہے۔ تھوڑی دیر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل جاتی ہے کہ مشہور ڈاکو و قاتل میکال چنگی نے گرفتاری دے دی ہے۔ اسکے ماں باپ بھی یہ خبر ٹی وی پہ دیکھ کر بھاگے بھاگے تھانے پہنچتے ہیں تھانے دار انہیںمیکال سے ملنے دے دیتا ہے۔ اپنے ماں باپ سے مل کر اسکی آنکھوں کے سارے بند پھر ٹوٹ جاتے ہیں اور ماں باپ بھی اسکا خوب ساتھ نبھاتے ہیں۔ شاید پورے تھانے میں رونے اور سسکیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اتنے میں تھانے دار ان لوگوں کو گھر بھیج دیتا ہے۔

عدالت اسے سزا سناکر جیل بھیج دیتی ہے لیکن اسکا چہرا آج سکون میں تھا جیسے وہ اسی انتظار میں تھا، جیسے اسی آس میں جی رہا تھا۔ آج اسکے والدین اور گھر والے بھی سکون میں تھے، آج وہ پہلی بار سکون سے سوسکتے تھے کہ آج انکا بیٹا کامیاب ہوگیا تھا وہ واپس آگیا تھا گو کہ وہ جیل میں تھا مگر جتنا قریب وہ آج تھا اس سے پہلے کبھی نا تھا۔ آج وہ اطمینان سے تھے اور میکال بھی آج چین سے سوسکتا تھا۔